ضلع لودھراں میں 400 کے قریب بندے مار ڈاگدارموجود،افسران اور صحافیوں کی چاندی

 ضلع لودھراں میں 400 کے قریب بندے مار ڈاگدارموجود،افسران اور صحافیوں کی چاندی

رپورٹ : رانا آصف حنیف

لودھراں کی آبادی جس تیزی سے 20 لاکھ کے ہندسے کو پہنچی ہے اسی تیزی سے بندے مار اتائ بھی اپنا مکروہ "دھندہ" لئے میدان میں اترے ہوئے ہیں لیکن آج تک یہ سمجھ نہیں آئ کہ ان اتائیوں کا ٹیٹوا دبانے والے محکمہ صحت کے سی ای او اور ڈی ایچ اووز کو سادہ لوح غریب انسانوں کے لہو کا کتنا خراج چاہئے کہ ان کے لالچی پیٹ کا کنواں بھر سکے ۔اطلاعات کے مطابق لودھراں کے چاروں بارڈرز سے لے کر اندورن دیہات اور شہروں میں ہر اتائ کا کوئی نہ کوئی سرپرست ہے ۔افسران اور سیاستدان کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن میری اپنی کمیونٹی "صحافی بِھرا" ان دونوں طبقات سے کہیں آگے ہیں ۔کسی نے اتائیہ کو معشوق کی شکل میں تو کسی نے مستقل آمدنی کے سہارے کے طور پر رکھا ہوا ہے ۔کہیں اتائ خانے میں براہ راست حصہ داری ہے تو کہیں ماہانہ بھتہ مل رہا ہے سو سب کا کام چل رہا ہے ۔اگر جھوٹ سے صاف پرہیز کروں تو ضلع کے 99 فیصد اتائیوں کے پیچھے دیگر سفارشیوں کے ساتھ ساتھ صحافی لازمی کھڑے ہیں ان نام نہاد ڈاکوؤں اور بلیک میلر لکھاریوں کا ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو پہلے "مکُو " ٹھپنا ہوگا ۔ماہانہ بھتے کے ساتھ روزانہ کے کھابے بھی صحافیوں کی ڈیمانڈ ہوتے ہیں جو یہ اتائ بصد شوق پورا کرتے ہیں اور اب تو عالم شرمندگی یہ ہے کہ اکثر اتائیوں کے پاس کسی نا کسی اخبار یا سی کلاس چینل کا کارڈ بھی ہر وقت ہوتا ہے ۔ میری جناب ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے بعد محکمہ صحت کے ایک آدھ بچے ایماندار افسر سے یہی گزارش ہوگی کہ ایسے دو نمبر یا سوسائٹی کیلئے ناسور بنے صحافیوں کی فہرستیں پہلے تیار کرکے ان اتائیوں کے ساتھ ان کے خلاف بھی مقدمے ٹھوکیں تاکہ برائی کا جڑ سے خاتمہ ہو.


1 comment:

IF YOU HAVE ANY DOUBT
PLEASE LET ME KNOW
THANK YOU 😊