خوشاب میں ایک بینک سیکورٹی گارڈ نے اپنے منیجرکو ’’توہین رسالت ﷺ‘‘ کامرتکب قرار دے کر،مارکر جنت کی سیٹ اپنے لیے بک کروالی

 خوشاب میں ایک بینک سیکورٹی گارڈ نے اپنے منیجرکو ’’توہین رسالت ﷺ‘‘ کامرتکب قرار دے کر،مارکر جنت کی سیٹ اپنے لیے بک کروالی۔۔۔۔۔۔




توہین کیا تھی۔۔۔۔۔۔۔بینک منیجر کا کہنا تھا کہ ۔۔۔۔

’’فرض نماز سے بھی نماز ادا ہوجاتی ہے سنتیں ضروری نہیں ‘‘

اب اس میں گستاخی کاکیا پہلو نکلتاہے؟

یہ تو وہ جاہل گارڈ اور یا اس کی برین واشنگ کرنے والے مذہبی نفسیاتی مریض بتاسکتے ہیں۔۔۔۔

پاکستان میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتاجارہاہے 

جہاں کوئی بھی نفسیاتی مریض کسی پر بھی گستاخی کا فتویٰ لگاکر پرسنل کھنس یا غص نکال لیتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔یاپھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی ازلی جہالت کی وجہ سے ۔۔۔چند مذہب فروشوں کے شکنجے میں پھنس جاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی دنیا وعاقبت دونوں خراب کرلیتاہے۔

اس میں قصور کس کا ہے؟

کچھ سال قبل پنجاب میں کسی جلسے میں ایک مقرر نے جوشِ خطابت دکھاتے ہوئے مجمعے سے کہا کہ 

’’تم میں سے جوکوئی حضور ﷺ کومعاذاللہ آخری نبی نہیں سمجھتا وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے‘‘

تو مجمعے میں موجود ایک ان پڑھ شخص کچھ اور سمجھا اور اس نے ہاتھ کھڑا کردیا

یہ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مذکورہ مولوی صاحب نے اس شخص سے کہا کہ

’’تونے شانِ رسالت ﷺ میں معاذاللہ گستاخی کردی ہے‘‘

یہ سن کر مذکورہ شخص جیسے ہی اپنے گھر گیا۔۔۔۔گھر میں رکھا ہوا ٹوکا اٹھایا اور اپنا ہاتھ کاٹ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ گستاخی کے لیے یہ ہاتھ کیوں اٹھا؟

اب حالانکہ اس واقعے میں بھی معاذاللہ گستاخی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ہے۔

لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مذکورہ جاہل خطیب نے ایک شخص کی زندگی خراب کردی۔۔۔۔

اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟

تو یہ کوئی الجبرا یا فزکس کا کوئی مشکل فارمولا نہیں ہے

سمپل سی بات ہے 

ان تمام واقعات کے ذمہ دار پڑھے لکھے مذہبی حلقے ہیں

جاہل مذہبی حلقے تو اپنی اپنی مذہب فروشی میں مصروف ہیں

ان کی دوکانیں اسی طرح کے ایشوز اور واقعات کے اردگرد گھومتی ہیں

اور وہ اپنابزنس چمکانے کے لیے ایسے ایشوز کو بطور بزنس مارکیٹنگ استعمال کرتے ہیں۔۔۔وہ بے چارے اپنی جگ بالکل درست ہیں۔۔۔کیونکہ ان کی روٹی روزی کا سوال ہے۔۔

پڑھا لکھا مذہبی حلقہ اس کا ذمہ دار اس لیے ہے کہ 

وہ اس طرح کے واقعات میں کھل کر ان مذہب فروشوں کی حوصلہ شکنی یا پھر جہالت دور کرنے کے عوام الناس کو درست مسئلہ بتانے میں ہچکچاتے ہیں کہ کہیں وہ بھی ان نفسیاتی مریضوں کی دشمنی کا نشانہ نہ بن جائیں۔۔۔۔

یہ تو وہ واقعات ہیں جہاں خدانخواستہ توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتاہے 

حالانکہ شریعت اسلامیہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ 

خدانخواستہ کوئی توہین کا مرتکب بھی ہوتاہے تو اسے کوئی شخص سزا نہیں دے سکتا ہے بلکہ ریاست اسے سزا دی گی۔۔۔۔۔۔

اگر ریاست یا حکومت سزا نہیں دیتی ہے تو عام آدمی سے قیامت میں اس بارے میں نہیں پوچھا جائے گا

اس کا سوال صرف اور صرف صاحب اقتدار حلقوں سے ہوگا۔

اب اس پر بہت سارے ٹرک کی بتی اور کاپی پیسٹ دانشور کہیں گے کہ

’’آج تک کس کو سزا ہوئی ہے اس کیس میں‘‘

تو میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ 

قیامت میں آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔۔۔۔

بالفرض آپ ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے پر مصر ہی ہیں تو آپ بتادیں کہ 

’’پاکستان میں کس شخص پر یہ الزام ثابت ہوا ہے اور سزا نہیں دی گئی‘‘

(اگر نام لکھنا ہو تو پلیز کوئی پڑھالکھا سمجھدار شخص لکھے، ٹرک کی فالورفیس بکی مجاہدین اگنور کریں)

توآخر میں ضرورت اس امر کی ہے۔

ان معاملات میں گلی محلے کے مفتیوں کے بجائے مستند دارالافتاء اور علماء کو اپنافرائض منصبی پورا کرنا چاہیے اور آگے بڑھ کر عوام کی علمی رہنمائی فرمائیں

تاکہ اس بینک گارڈ کی طرح دیگر جاہل لوگ بھی مذہب فروش نفسیاتی مریضوں کے چنگل سے بچ سکیں۔

اور ہماراملک اور معاشرہ پرامن رہے۔ 

شکریہ

(پس نوشت ہوسکتاہے آئندہ چند دنوں میں مذکورہ نفسیاتی مریضوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر بینک منیجر کے حوالے بہت سی افواہیں بھی وائرل کردی جائیں۔۔۔کیونکہ میں نے عرض کیا۔۔۔۔۔ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہی ایسے ایشوز ہیں۔۔۔بالفرض وہ خدانخواستہ گستاخ بھی تھا تو بھی۔۔۔۔اسے مارنے کا حق حکومت کے علاو کسی پاس ہے ہی نہیں۔)


1 comment:

IF YOU HAVE ANY DOUBT
PLEASE LET ME KNOW
THANK YOU 😊